Channel: عَبْدُاللهِ بنُ مَظْهَرُالدِّين
📍 لا تُهمل ولدك ..
🔸 قال ابن القيم رحمه الله:
فَمن أهمل تَعْلِيم ولَده ما يَنْفَعهُ، وتَركه سدًى، فقد أساءَ إلَيْهِ غايَة الإساءَة، وأكْثر الأوْلاد إنَّما جاءَ فسادهم من قِبَل الآباء وإهمالهم لَهُم، وترك تعليمهم فَرائض الدّين وسُننه، فأضاعوهم صغارًا، فَلم ينتفعوا بِأنْفسِهِم، ولم ينفعوا آباءَهُم كبارًا.
📚 تحفة المودود صـ ٣٣٧
🔸 قال ابن القيم رحمه الله:
فَمن أهمل تَعْلِيم ولَده ما يَنْفَعهُ، وتَركه سدًى، فقد أساءَ إلَيْهِ غايَة الإساءَة، وأكْثر الأوْلاد إنَّما جاءَ فسادهم من قِبَل الآباء وإهمالهم لَهُم، وترك تعليمهم فَرائض الدّين وسُننه، فأضاعوهم صغارًا، فَلم ينتفعوا بِأنْفسِهِم، ولم ينفعوا آباءَهُم كبارًا.
📚 تحفة المودود صـ ٣٣٧
فضل التَّدريس
■ عن أبي أمامة الباهليُّ -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله ﷺ: (فَضْلُ العَالِمِ عَلَى العَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ، إِنَّ اللهَ وَمَلاَئِكَتَهُ، وَأَهْلَ السَّمَٰوَاتِ وَالأَرْضِ، حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا، وَحَتَّى الحُوتَ فِي البَحْرِ، لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الخَيْرَ) [أخرجه التِّرمذيُّ والطَّبرانيُّ، صحَّحه الألباني في صحيح الجامع 4213].
● قال العلاَّمة ابن القيِّم -رحمه الله-: "لمَّا كان تعليمه للنَّاس الخير سببا لنجاتهم وسعادتهم، وزكاة نفوسهم، جازاه الله من جنس عمله؛ بأن جعل عليه من صلاته، وصلاة ملائكته، وأهل الأرض ما يكون سببا لنجاته، وسعادته، وفلاحه"
📚[مفتاح دار السَّعادة (63/1)].
● وقال الشَّيخ ابن باز -رحمه الله-: "فواجب المدرِّس والمدرِّسة عظيم، والدَّعوة إلى الله سبحانه وتعالى واجب عظيم على الجميع، فعلى كلِّ من لديه علم من الرِّجال أن يعلِّم أولاده من الذُّكور والإناث وأهل بيته وغيرهم حسب الطَّاقة، وعلى كلِّ من لديها علم من النِّساء أن تعلِّم بناتها وأبناءها، وتعلِّم أخواتها، وتعلِّم من حولها من النِّساء، وتنتهز الفرصة عند الاجتماع في عرس أو وليمة أو غير ذلك للدَّعوة إلى الله، والأمر بالمعروف والنَّهي عن المنكر، والتَّذكير لمن عندها من النِّساء، وتعليمهنَّ وإرشادهنَّ، إذا رأت امرأة متبرِّجة عند الرِّجال، أو في الطَّريق تنهاها عن ذلك وتحذِّرها منه، وتحذِّر عن التَّكاسل عن الصَّلاة؛ بنتها وأختها وجارتها وغيرهنَّ، وتأمرهنَّ بالمعروف وتنهاهنَّ عن المنكر، وهذا هو واجب الجميع" [مجموع فتاوى ومقالات (222/5)].
● وقال الإمام السَّعديُّ -رحمه الله-: "فالمعلم مأجور على نفس تعليمه، سواء أفهم المتعلِّم أو لم يفهم، فإذا فهم ماعلمه، وانتفع به بنفسه أو نفع به غيره، كان الأجر جاريا للمعلِّم مادام النَّفع متسلسلا متَّصلا، وهذه تجارة بمثلها يتنافس المتنافسون، فعلى المعلِّم أن يسعى سعيا شديدا في إيجاد هذه التِّجارة، فهي من عمله وآثار عمله، قال تعالى: ﴿إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ﴾، فـ ﴿مَا قَدَّمُوا﴾: ما باشروا عمله، ﴿وَآثَارَهُمْ﴾: ما يترتَّب على أعمالهم من المصالح والمنافع، أو ضدِّها في حياتهم وبعد مماتهم" [الفتاوىٰ السَّعديَّة 450].
يحيى بن معين - رحمه الله - إمام الجرح والتعديل توفي بالمدينة النبوية سنة ٢٣٣ هـ ودُفن بالبقيع .
قال الذهبي رحمه الله :
وحُمِل على سرير رسول الله ﷺ ونُودي بين الناس : ( هذا الذاب عن رسول الله ﷺ الكذب ) .
📚 سير أعلام النبلاء ( ٨٤/١١) 📚
قال الذهبي رحمه الله :
وحُمِل على سرير رسول الله ﷺ ونُودي بين الناس : ( هذا الذاب عن رسول الله ﷺ الكذب ) .
📚 سير أعلام النبلاء ( ٨٤/١١) 📚
قال سفيان الثوري - رحمه الله - :
" استوصوا بأهل السنة خيرًا، فإنهم غرباء "
📚 أصول الاعتقاد للالكائي ٣٠
" استوصوا بأهل السنة خيرًا، فإنهم غرباء "
📚 أصول الاعتقاد للالكائي ٣٠
قال عمر بن عبد العزيز - رحمه الله - :
" إذا رأيت قومًا يتناجون في دينهم بشيء دون العامة فاعلم أنهم على تأسيس ضلالة "
📚 الدارمي في السنن ١ / ٣٤٣
" إذا رأيت قومًا يتناجون في دينهم بشيء دون العامة فاعلم أنهم على تأسيس ضلالة "
📚 الدارمي في السنن ١ / ٣٤٣
قال الإمام الحسن البصري - رحمه الله - :
" إن هذا الدِّينَ قَويٌّ، وإنَّ الحقَّ ثقيلٌ، وإنَّ الإنسانَ ضعيفٌ، فليأخُذ أحدكُمُ ما يُطيقُ، فإنَّ العبدَ إذا كلَّف نفسهُ من العملِ فوقَ طاقتها، خافَ عليها السآمةَ والتَّركَ "
📚 آداب الحسن البصري ٥٢
" إن هذا الدِّينَ قَويٌّ، وإنَّ الحقَّ ثقيلٌ، وإنَّ الإنسانَ ضعيفٌ، فليأخُذ أحدكُمُ ما يُطيقُ، فإنَّ العبدَ إذا كلَّف نفسهُ من العملِ فوقَ طاقتها، خافَ عليها السآمةَ والتَّركَ "
📚 آداب الحسن البصري ٥٢
✍🏼 قال العلامة محمد العثيمين - رحمه الله - :
« فلا حاجة إلى أن نبحث عن مواعظ ترقق القلوب من غير الكتاب والسنة بل نحن في غنى عن هذا كله، ففي العلم الموروث عن محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم ما يشفي ويكفي في كل أبواب العلم والإيمان » .
المصدر: «شرح العقيدة الواسطية» (٥٣٧)
« فلا حاجة إلى أن نبحث عن مواعظ ترقق القلوب من غير الكتاب والسنة بل نحن في غنى عن هذا كله، ففي العلم الموروث عن محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم ما يشفي ويكفي في كل أبواب العلم والإيمان » .
المصدر: «شرح العقيدة الواسطية» (٥٣٧)
إنا لله وإنا إليه راجعون
توفي شيخنا المعمر المحدث فضل الرحمن السلفي المظفرفوري رحمه الله تعالى رحمة واسعة وأسكنه فسيح جناته
إن العين لتدمع، وإن القلب ليحزن، وإنا على فراقك يا شيخنا لمحزونون، ولا نقول إلا ما يرضي الله.
«إنا لله وإنا إليه راجعون》
توفي شيخنا المعمر المحدث فضل الرحمن السلفي المظفرفوري رحمه الله تعالى رحمة واسعة وأسكنه فسيح جناته
إن العين لتدمع، وإن القلب ليحزن، وإنا على فراقك يا شيخنا لمحزونون، ولا نقول إلا ما يرضي الله.
«إنا لله وإنا إليه راجعون》
أهلُ الحديثِ عصابةٌ نبويَّةٌ
ترضى بفعلِ المصطفى وبأمرهِ
وتحطُّ رأيَ الناسِ أو أقوالهم
حطَّ السيولِ الصخرَ أعلى صخرِِهِ
الشيخ محمد بن يوسف السُّورتي (ت ١٣٦١هـ)
http://hottg.com/abdullahmzhr
ترضى بفعلِ المصطفى وبأمرهِ
وتحطُّ رأيَ الناسِ أو أقوالهم
حطَّ السيولِ الصخرَ أعلى صخرِِهِ
الشيخ محمد بن يوسف السُّورتي (ت ١٣٦١هـ)
http://hottg.com/abdullahmzhr
جلس أحد الشّيوخ بين طلابه يشرح "نُونيِّة القحطَاني" فلمَّا وصل إلى البيت القائل:
لا تحشُ بطنَك بالطَّعامِ تسمّناً
فجسوم أهل العلمِ غير سِمانِ
وكان الشيخ سميناً، فقال: هذا البيت محل نظر.
منقول ...
لا تحشُ بطنَك بالطَّعامِ تسمّناً
فجسوم أهل العلمِ غير سِمانِ
وكان الشيخ سميناً، فقال: هذا البيت محل نظر.
منقول ...
قال الفضيل: "خير العمل أخفاه، أمنعه من الشيطان وأبعده من الرياء".
[التبصرة لابن الجوزي - ٧٩٩/٢]
[التبصرة لابن الجوزي - ٧٩٩/٢]
؞؞روداد سفر پٹنہ؞
_____
بقلم : عبد اللہ سہل
موسم سرما کی تعطیل کا اعلان پچھلے کچھ ہفتہ قبل ہی ہوا تھا اور اکثر طلبہ ساتھیوں نے گھر کی تیاریاں بھی شروع کر رکھی تھی، لیکن ہمارے بھائی عبداللہ مظھر گھر کے بجائے کسی "علمی سفر" کی تیاری میں مصروف تھے، بالآخر یہ طے پایا کہ تعطیل کے پہلے ہی دن یعنی 27 دسمبر 2022ء کی شام مغل سراۓ سے پٹنہ شہر کی طرف رخ کیا جائے۔
گو حسب وعدہ دسمبر کی وہ شام آ ہی گئی جس کا انتظار تھا، اس روز ٹھنڈ تیز تھی، ہوائیں رخسار پہ تھپیڑے کا اثر کر رہی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ جسم کچھ لمحوں بعد خنک نما ہو جائے، سو ہم نے ٹھنڈ سے بچنے کے تمام آلات کو اپنے ساتھ لے لیے تھے، ہمارے بھائی عبد اللہ مظہر اس معاملہ میں مجھ سے آگے تھے لیکن انہیں استعمال میں لانے میں وہ اکثر متساهل واقع ہوئے۔
یہ میری زندگی کا پہلا علمی سفر تھا جس کی شروعات مغل سراۓ (اب پنڈت دین دیال اپادھیاۓ) اسٹیشن سے ہوئی۔
پنڈت دین دیال اپادھیاۓ (مغل سراۓ) ریلوے اسٹیشن : مغل سراۓ جو کبھی بنارس کا حصہ تھا اب چندولی ضلع میں اس کا شمار ہوتا ہے، اس علاقے میں واقع مغلسراۓ اسٹیشن ہے جو مغلوں کی علامت ہے، جس کی عمارت 1880ء میں تعمیر کی گئی تھی، بعد میں حسب ضرورت اس میں توسیع بھی ہوئی، یہ اسٹیشن ایشیا کے ان بڑے اسٹیشنوں میں سے ایک ہے جہاں ہر چھوٹی بڑی ٹرین رکتی ہے، تقریباً دو سو سے زائد ٹرین ہر دن یہاں سے روانہ ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کے "وزیر اعلی یوگی" نے مرکزی حکومت کو اس کا نام بدلنے کا مشورہ دیا تھا جس کی اجازت وزیر داخلہ سے موصول ہونے کے بعد اگست 2018ء کے اوائل میں اس کا نام "پنڈت دین دیال اپادھیاۓ" رکھا گیا ہے۔
تقریباً ایک گھنٹہ قبل ہم لوگ اسٹیشن پہنچ چکے تھے، گاڑی پلیٹ فارم نمبر دو پر آنے والی تھی لیکن کسی عارضہ کی بنا پر پلیٹ فارم نمبر ایک پر آئی۔ گھڑی نے رات کے آٹھ بجا دیے تھے، ہم نے اپنی اپنی سیٹ کھوج لی، پھرچند منٹ کے بعد ریل گاڑی نے چلنا شروع کیا تو دلدارپور سے ہوتے ہوئے بکسر پھر علامہ ابراہیم آرویؒ اور اسحاق آرویؒ کے شہر "آرہ" سے ہوتے ہوئے داناپور اسٹیشن پر اتر گئے۔
جاری....
_____
بقلم : عبد اللہ سہل
موسم سرما کی تعطیل کا اعلان پچھلے کچھ ہفتہ قبل ہی ہوا تھا اور اکثر طلبہ ساتھیوں نے گھر کی تیاریاں بھی شروع کر رکھی تھی، لیکن ہمارے بھائی عبداللہ مظھر گھر کے بجائے کسی "علمی سفر" کی تیاری میں مصروف تھے، بالآخر یہ طے پایا کہ تعطیل کے پہلے ہی دن یعنی 27 دسمبر 2022ء کی شام مغل سراۓ سے پٹنہ شہر کی طرف رخ کیا جائے۔
گو حسب وعدہ دسمبر کی وہ شام آ ہی گئی جس کا انتظار تھا، اس روز ٹھنڈ تیز تھی، ہوائیں رخسار پہ تھپیڑے کا اثر کر رہی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ جسم کچھ لمحوں بعد خنک نما ہو جائے، سو ہم نے ٹھنڈ سے بچنے کے تمام آلات کو اپنے ساتھ لے لیے تھے، ہمارے بھائی عبد اللہ مظہر اس معاملہ میں مجھ سے آگے تھے لیکن انہیں استعمال میں لانے میں وہ اکثر متساهل واقع ہوئے۔
یہ میری زندگی کا پہلا علمی سفر تھا جس کی شروعات مغل سراۓ (اب پنڈت دین دیال اپادھیاۓ) اسٹیشن سے ہوئی۔
پنڈت دین دیال اپادھیاۓ (مغل سراۓ) ریلوے اسٹیشن : مغل سراۓ جو کبھی بنارس کا حصہ تھا اب چندولی ضلع میں اس کا شمار ہوتا ہے، اس علاقے میں واقع مغلسراۓ اسٹیشن ہے جو مغلوں کی علامت ہے، جس کی عمارت 1880ء میں تعمیر کی گئی تھی، بعد میں حسب ضرورت اس میں توسیع بھی ہوئی، یہ اسٹیشن ایشیا کے ان بڑے اسٹیشنوں میں سے ایک ہے جہاں ہر چھوٹی بڑی ٹرین رکتی ہے، تقریباً دو سو سے زائد ٹرین ہر دن یہاں سے روانہ ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کے "وزیر اعلی یوگی" نے مرکزی حکومت کو اس کا نام بدلنے کا مشورہ دیا تھا جس کی اجازت وزیر داخلہ سے موصول ہونے کے بعد اگست 2018ء کے اوائل میں اس کا نام "پنڈت دین دیال اپادھیاۓ" رکھا گیا ہے۔
تقریباً ایک گھنٹہ قبل ہم لوگ اسٹیشن پہنچ چکے تھے، گاڑی پلیٹ فارم نمبر دو پر آنے والی تھی لیکن کسی عارضہ کی بنا پر پلیٹ فارم نمبر ایک پر آئی۔ گھڑی نے رات کے آٹھ بجا دیے تھے، ہم نے اپنی اپنی سیٹ کھوج لی، پھرچند منٹ کے بعد ریل گاڑی نے چلنا شروع کیا تو دلدارپور سے ہوتے ہوئے بکسر پھر علامہ ابراہیم آرویؒ اور اسحاق آرویؒ کے شہر "آرہ" سے ہوتے ہوئے داناپور اسٹیشن پر اتر گئے۔
جاری....
؞؞ روداد سفر پٹنہ؞؞
___
قسط دوم
بقلم : عبداللہ سہل
داناپور : یہ ہندوستان کی ریاست بہار کی دارالحکومت پٹنہ ضلع کا ایک آباد مقام ہے، اس علاقہ نے بہتیرے ادباء، علماء و صلحاء کو پیدا کیا ہے۔ میاں صاحب کے شاگرد مولوی عبدالغفور داناپوری اسی علاقہ کے تھے۔
اسی علاقہ کے بارے میں بہار کے مشہور صوفی شاعر شاہ اکبر داناپوری نے یہ شعر کہا تھا۔ ع
رہے داناپور آباد و شاد
الہی بر آئے سبھوں کی مراد
داناپور سے بذریعہ آٹو ہم نے پھلواری شریف کا رخ کیا جہاں ہمارے دوست مولوی عبد اللہ ارشد آٹو اسٹیند پر انتظار کر رہے تھے، تقریباً بارہ بجے کے قریب ان کے گھر میں ہم مہمان ہوئے۔
پھلواری شریف : ہزار سالوں قبل انسانی آبادی سے پہلے اس سرزمین پر راجہ اشوک کا نادر روزگار باغ تھا جسے لوگ " راجہ کی پھلواری" کہتے تھے۔ امتداد زمانہ سے باغ کی وہ رونق بے نور ہو گئی، اور گلستان کھنڈر بن گیا۔ بعد میں سنیاسی فقراء نے اسے اپنا مسکن و معبد بنایا کچھ مدت بعد جین و بدھ مذہب وغیرہ کے لوگ آۓ اور اسے مزید آباد کیا بعد ازاں جب اسلامی تہذیب کا اثر اس علاقہ پر پڑا تو یہاں اللہ والے ملنے لگے، اور اب علاقہ میں صوفیت کا خوب چرچا ہے۔
میاں صاحب محدث دہلوی کے مشہور شاگرد شاہ عین الحق پھلواری (م 1333ھ) اور شاہ سلیمان پھلواری (م 1935ء) اسی علاقہ کے تھے۔
یہ علاقہ عالی سند والے علماء و فضلاء حضرات کا مسکن رہا ہے۔
مولوی عبد اللہ ارشد پھلواری شریف کے عیسی پور نامی محلہ میں رہتے ہیں جہاں اہلحدیث کی ایک ہی مسجد ہے جس میں لوگ دور دور سے نماز پڑھنے آتے ہیں۔
ہماری ٹرین ساڑھے گیارہ بجے رات داناپور پہنچی تھی جہاں سے ہم نے مولوی عبد اللہ ارشد کے گھر کا رخ کیا، رات میں ہم دونوں یعنی میں اور عبداللہ مظھر اسی خیال میں تھے کہ صبح کب ہوگی، چند گھنٹوں کی رات اس روز مزید طویل ہوتی جا رہی تھی، ہر طرف سناٹا تھا، باہر دور کتوں کی آواز سنائی دے رہی تھی، مکانوں اور فلک بوس عمارتوں کو اوس نے اپنے شکنجہ میں لے لیا تھا، گویا رات کی تاریکی یہ ندا لگا رہی ہو "یا لیل طل" لیکن اس روز تکان کے باوجود نیند دیر سے آئی وہ تو میں کسی طرح سو گیا لیکن عبد اللہ مظھر رات بھر جاگتے رہے، کہتے ہیں کہ "مجھے نیند ہی نہیں آرہی تھی"۔
بالآخر دنیا کی گھڑی نے غلس کا وقت لا ہی دیا، آسمان پر صبح کاذب نے صبح صادق کو مطلع کر دیا کہ اب طلوع ہو جاؤ، تو روشنیاں افق کے پردے کو چاک کرتے ہوئے اس کونے سے اس کونے تک پھیل گئی، جہاں دیکھوں اجالا ہی اجالا تھا لیکن پر سکون ماحول میں شبنمی ہواؤں کے جھونکے تیز تھے، جس کی بنا پر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اور اس سخت ٹھنڈ سے بچاؤ کے لیے مہمان خانہ میں داخلہ کے بعد کمبل نے خوب کام کیا۔
پھر مولوی عبد اللہ ارشد کے والد محترم ارشد ہاشمی صاحب نے خوب علمی گفتگو کی، اپنے مسلک منتقلی میں جو جو دشواریاں آئی تھیں اس کو سنا رہے تھے اور سلفیت میں گہرائی حاصل کرنے کے لیے ابھار رہے تھے۔
جاری.....
___
قسط دوم
بقلم : عبداللہ سہل
داناپور : یہ ہندوستان کی ریاست بہار کی دارالحکومت پٹنہ ضلع کا ایک آباد مقام ہے، اس علاقہ نے بہتیرے ادباء، علماء و صلحاء کو پیدا کیا ہے۔ میاں صاحب کے شاگرد مولوی عبدالغفور داناپوری اسی علاقہ کے تھے۔
اسی علاقہ کے بارے میں بہار کے مشہور صوفی شاعر شاہ اکبر داناپوری نے یہ شعر کہا تھا۔ ع
رہے داناپور آباد و شاد
الہی بر آئے سبھوں کی مراد
داناپور سے بذریعہ آٹو ہم نے پھلواری شریف کا رخ کیا جہاں ہمارے دوست مولوی عبد اللہ ارشد آٹو اسٹیند پر انتظار کر رہے تھے، تقریباً بارہ بجے کے قریب ان کے گھر میں ہم مہمان ہوئے۔
پھلواری شریف : ہزار سالوں قبل انسانی آبادی سے پہلے اس سرزمین پر راجہ اشوک کا نادر روزگار باغ تھا جسے لوگ " راجہ کی پھلواری" کہتے تھے۔ امتداد زمانہ سے باغ کی وہ رونق بے نور ہو گئی، اور گلستان کھنڈر بن گیا۔ بعد میں سنیاسی فقراء نے اسے اپنا مسکن و معبد بنایا کچھ مدت بعد جین و بدھ مذہب وغیرہ کے لوگ آۓ اور اسے مزید آباد کیا بعد ازاں جب اسلامی تہذیب کا اثر اس علاقہ پر پڑا تو یہاں اللہ والے ملنے لگے، اور اب علاقہ میں صوفیت کا خوب چرچا ہے۔
میاں صاحب محدث دہلوی کے مشہور شاگرد شاہ عین الحق پھلواری (م 1333ھ) اور شاہ سلیمان پھلواری (م 1935ء) اسی علاقہ کے تھے۔
یہ علاقہ عالی سند والے علماء و فضلاء حضرات کا مسکن رہا ہے۔
مولوی عبد اللہ ارشد پھلواری شریف کے عیسی پور نامی محلہ میں رہتے ہیں جہاں اہلحدیث کی ایک ہی مسجد ہے جس میں لوگ دور دور سے نماز پڑھنے آتے ہیں۔
ہماری ٹرین ساڑھے گیارہ بجے رات داناپور پہنچی تھی جہاں سے ہم نے مولوی عبد اللہ ارشد کے گھر کا رخ کیا، رات میں ہم دونوں یعنی میں اور عبداللہ مظھر اسی خیال میں تھے کہ صبح کب ہوگی، چند گھنٹوں کی رات اس روز مزید طویل ہوتی جا رہی تھی، ہر طرف سناٹا تھا، باہر دور کتوں کی آواز سنائی دے رہی تھی، مکانوں اور فلک بوس عمارتوں کو اوس نے اپنے شکنجہ میں لے لیا تھا، گویا رات کی تاریکی یہ ندا لگا رہی ہو "یا لیل طل" لیکن اس روز تکان کے باوجود نیند دیر سے آئی وہ تو میں کسی طرح سو گیا لیکن عبد اللہ مظھر رات بھر جاگتے رہے، کہتے ہیں کہ "مجھے نیند ہی نہیں آرہی تھی"۔
بالآخر دنیا کی گھڑی نے غلس کا وقت لا ہی دیا، آسمان پر صبح کاذب نے صبح صادق کو مطلع کر دیا کہ اب طلوع ہو جاؤ، تو روشنیاں افق کے پردے کو چاک کرتے ہوئے اس کونے سے اس کونے تک پھیل گئی، جہاں دیکھوں اجالا ہی اجالا تھا لیکن پر سکون ماحول میں شبنمی ہواؤں کے جھونکے تیز تھے، جس کی بنا پر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اور اس سخت ٹھنڈ سے بچاؤ کے لیے مہمان خانہ میں داخلہ کے بعد کمبل نے خوب کام کیا۔
پھر مولوی عبد اللہ ارشد کے والد محترم ارشد ہاشمی صاحب نے خوب علمی گفتگو کی، اپنے مسلک منتقلی میں جو جو دشواریاں آئی تھیں اس کو سنا رہے تھے اور سلفیت میں گہرائی حاصل کرنے کے لیے ابھار رہے تھے۔
جاری.....
؞؞روداد سفر پٹنہ؞؞
___
قسط سوم
بقلم : عبداللہ سہل
ناشتہ کے بعد مولوی عبد اللہ ارشد کے ہمراہ ہم نے عالم گنج جانے کا فیصلہ کیا، راہ میں چھوٹی بڑی عمارتوں کو عبور کرتے ہوئے، تنگ و وسیع شاہراہ سے گزرتے ہوئے، ازدحام کثیر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، مصروف دنیا کی مختلف آوازوں کی پرواہ کیے بغیر، آلودگیوں سے بچتے ہوئے،مختلف تعلیم گاہوں کا دید کرتے ہوئے، اور کلیم عاجز سے ملتے ہوئے شاد عظیم آبادی کے علاقہ کے تاریخی محلہ عالم گنج پہنچ گئے، جہاں سب سے پہلے ہماری ملاقات مولانا عبد البدیع بشہیر مجاہد جعفری صان الله متاعه سے ہوئی، کافی دیر تک مختلف گوشوں پر باتیں کی گئی، عصر کی اذان نے ہمیں مزید گفتگو سے روک دیا تھا، نماز کے لیے میر شکار ٹولہ کی تاریخی مسجد میں گئے۔
میر شکار ٹولہ، ننموہیاں : ننموہیاں یہ پرانا نام ہے، غالباً اب بھی لوگ میر شکار ٹولہ کو اسی نام سے پکارتے ہوں گے، خیر میں یہ کہہ رہا تھا کہ یہ صادقپور کا وہی محلہ ہے جہاں میاں نذير حسين محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی ابتدائی تعلیم مولانا ولایت علی عظیم آبادی پر شروع کی تھی، 1236ھ مطابق 1821ء کو سید احمد شہید بریلوی اور مولانا اسماعیل شہید دہلوی، حج بیت اللہ کے لیے بنارس سے ہوتے ہوئے داناپور سے گزرتے ہوئے اسی محلہ میں قیام کیا تھا، مولانا اسماعیل دہلوی نے اس مسجد میں بھی خطاب کیا ہے، میاں صاحب نے ان دونوں امامین کو سب سے پہلے یہیں دیکھا تھا۔
امامین شہیدین نے جس کمرہ میں قیام کیا تھا آج بھی وہ کمرہ باقی ہے، مولانا عبد البدیع کہتے ہیں اب خاندان میں جس کی شادی ہوتی ہے وہ شب زفاف کے لیے اسی کو چنتا ہے۔
مسجد کے شمال جانب مولانا عبد الخبیر صادقپوری کی کچھ مملوکہ جائیداد ہے جو انہیں وراثت میں ان کے ننہال سے ملی تھی۔
مسجد کے پچھم سمت قبرستان ہے جو مسجد سے الگ ہے، جہاں خاندان صادقپور کے علماء و جہابذہ اور "اسیر کالا پانی عبد الرحیم صادقپوریؒ" آرام فرما رہے ہیں۔
مسجد کا حال : اس مسجد کی تاریخ کا علم تو نہیں، لیکن لوگ کہتے ہیں کہ عالمگیر کے دور سے اس کا قیام ہے، مسجد کی بیرونی عمارت تین منزلہ ہے، اندرون عمارت میں وسیع و عریض جگہ ہے، نمازیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ مقتدیوں میں بعض لوگ ایسے بھی ملے جو بعد الرکوع " وضع الیدین علی الصدر" کے قائل تھے۔
جاری......
___
قسط سوم
بقلم : عبداللہ سہل
ناشتہ کے بعد مولوی عبد اللہ ارشد کے ہمراہ ہم نے عالم گنج جانے کا فیصلہ کیا، راہ میں چھوٹی بڑی عمارتوں کو عبور کرتے ہوئے، تنگ و وسیع شاہراہ سے گزرتے ہوئے، ازدحام کثیر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، مصروف دنیا کی مختلف آوازوں کی پرواہ کیے بغیر، آلودگیوں سے بچتے ہوئے،مختلف تعلیم گاہوں کا دید کرتے ہوئے، اور کلیم عاجز سے ملتے ہوئے شاد عظیم آبادی کے علاقہ کے تاریخی محلہ عالم گنج پہنچ گئے، جہاں سب سے پہلے ہماری ملاقات مولانا عبد البدیع بشہیر مجاہد جعفری صان الله متاعه سے ہوئی، کافی دیر تک مختلف گوشوں پر باتیں کی گئی، عصر کی اذان نے ہمیں مزید گفتگو سے روک دیا تھا، نماز کے لیے میر شکار ٹولہ کی تاریخی مسجد میں گئے۔
میر شکار ٹولہ، ننموہیاں : ننموہیاں یہ پرانا نام ہے، غالباً اب بھی لوگ میر شکار ٹولہ کو اسی نام سے پکارتے ہوں گے، خیر میں یہ کہہ رہا تھا کہ یہ صادقپور کا وہی محلہ ہے جہاں میاں نذير حسين محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی ابتدائی تعلیم مولانا ولایت علی عظیم آبادی پر شروع کی تھی، 1236ھ مطابق 1821ء کو سید احمد شہید بریلوی اور مولانا اسماعیل شہید دہلوی، حج بیت اللہ کے لیے بنارس سے ہوتے ہوئے داناپور سے گزرتے ہوئے اسی محلہ میں قیام کیا تھا، مولانا اسماعیل دہلوی نے اس مسجد میں بھی خطاب کیا ہے، میاں صاحب نے ان دونوں امامین کو سب سے پہلے یہیں دیکھا تھا۔
امامین شہیدین نے جس کمرہ میں قیام کیا تھا آج بھی وہ کمرہ باقی ہے، مولانا عبد البدیع کہتے ہیں اب خاندان میں جس کی شادی ہوتی ہے وہ شب زفاف کے لیے اسی کو چنتا ہے۔
مسجد کے شمال جانب مولانا عبد الخبیر صادقپوری کی کچھ مملوکہ جائیداد ہے جو انہیں وراثت میں ان کے ننہال سے ملی تھی۔
مسجد کے پچھم سمت قبرستان ہے جو مسجد سے الگ ہے، جہاں خاندان صادقپور کے علماء و جہابذہ اور "اسیر کالا پانی عبد الرحیم صادقپوریؒ" آرام فرما رہے ہیں۔
مسجد کا حال : اس مسجد کی تاریخ کا علم تو نہیں، لیکن لوگ کہتے ہیں کہ عالمگیر کے دور سے اس کا قیام ہے، مسجد کی بیرونی عمارت تین منزلہ ہے، اندرون عمارت میں وسیع و عریض جگہ ہے، نمازیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ مقتدیوں میں بعض لوگ ایسے بھی ملے جو بعد الرکوع " وضع الیدین علی الصدر" کے قائل تھے۔
جاری......
؞؞روداد سفر پٹنہ؞؞
___
قسط چہارم
بقلم : عبداللہ سہل
یہاں سے ہم لوگ اب صادقپور کے لیے نکل رہے تھے، پتھر کی مسجد جس میں مولوی اسماعیل دہلوی نے خطبہ دیا تھا، سے گزرتے ہوئے کئی ایک مساجد کا دیدار کرتے ہوئے منزل کو پہنچ گئے، جوں ہی ہم لوگ صادقپور نامی محلہ میں پہنچے تھے کہ سورج غروب ہونے لگا، بادلوں نے ہمیشہ کی طرح اپنوں سے جدائی کر رکھی تھی، آسمان پر دھیرے دھیرے ارغوانی چھا رہی تھی، ہواؤں کی رفتار میں تیزی ہونے لگی، لوگ جلد بازی میں اپنے کام کو سمیٹ رہے تھے، سبزی فروش دور بیٹھا اپنا حساب کر رہا تھا، چاۓ کے رسیاں دکانوں کو خالی کیے جا رہے تھے، ہر شخص اپنے مہاد کی طرف رواں دواں تھا۔ ان لمحات میں میری آنکھیں خاندان صادقپور کی فلک بوس عمارتیں، اور اس کے مکین کو ڈھونڈ رہی تھی، وہ قبرستان جس میں چودہ پشتوں تک کے لوگ مدفون تھے، جی چاہا کہ چل کر دیکھا جائے، لیکن سب کچھ ختم ہو چکا تھا، اب مولوی عبد الرحیم (اسیر کالا پانی) کی زبانی اس سرزمین اور خاندان صادقپور کی جائیداد اور قبرستان کا حال سنیے جب وہ کالا پانی کی اسارت سے رہا ہو کر گھر کو پہونچے تھے:
۔”محلہ ننموہیہ میں پہنچا، جہاں کہ میرے اہل و عیال مقیم تھے، اس کی صبح ہو کے صادق پور گیا تو وہاں دیکھا کہ ہم لوگوں کے مکانات کل منہدم کر کے کف دست میدان بنا دیا گیا ہے اور اس پر بازار اور میونسپلٹی کے مکانات بنا دیے گئے ہیں۔ میں نے چاہا کے اپنے خاندانی مقبرہ کو کہ جہاں چودہ پشت سے ہمارے آبا و اجداد دفن ہوتے چلے آئے تھے جا کر دیکھوں اور خصوصاً اپنے والدین ماجدین غفر ﷲ لہما کے مزار کی زیارت کروں اور اس پر دعائے مغفرت اور فاتحہ پڑھوں۔ مگر ہر چند کہ کوشش کی پتا نہ ملا۔ بعد تجسس و تفحص بسیار و غور و فکر کے قرینہ سے معلوم ہوا کہ حضرت والدین ماجدین کی قبریں کھود کر اس پر عمارت میونسپلٹی بنا دی گئی ہے۔
اے حضرات ناظرین! اس وقت اس حرکت کا جو ہمارے اموات کے ساتھ کی گئی جو صدمہ دل سے گزرا وہ بیرون از حیطہ تحریر و تقریر ہے۔ اس وقت تک اس کی یاد سے بدن کے رونگٹے تک کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے جرم میں ہمارے اموات و آبا و اجداد کی قبریں کیوں کھودی گئیں اور وہ مقبرہ کیوں معرض ضبطی میں آیا، ہماری عادل گورنمنٹ نے کیوں یہ کام کیا ؟ بہرکیف میں نے اسی جگہ کھڑے ہو کر کہ جہاں ان کی قبر میرے خیال میں آئی دعائے مغفرت کر لی اور آج تک بھی ایسا ہی کر لیا کرتا ہوں۔” (الدر المنثور فی تراجم اھل الصادق فور، ص: 144- 145، مطبوعہ ہادی المطابع کلکتہ 1901ء)۔
مولوی عبد الرحیم جیسے ہی خاموش ہوۓ تھے کہ یہ زمین گویا ہوئی کہ تو ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ اور سن لیا نا، اب نہ یہاں مولوی عبد الخبیر صادقپوری کا کوئی مطب ہے اور نہ ہی کوئی مولوی عبدالرحیم صادقپوری کی طرح صبح صبح یہاں آتا ہے تاکہ اپنے آباء و اجداد پر فاتحہ پڑھے۔ کیونکہ لوگوں نے ان کی خدمات کو قصہ پارینہ سمجھ لیا ہے۔
یہ سچ ہیکہ تحریک آزادی میں جتنی مساعی اس خاندان کی رہی ان تک دوسرے نہ پہونچے، لیکن ان کی کوششوں اور مساعی کے صلہ میں "نہرو جی" نے چند الفاظ ہی ان کے گھر آ کر مولوی عبد الخبیر صادقپوری سے کہے کہ "خاندان صادقپور کی خدمات کو ایک پلڑے میں اور تمام ہندوستانیوں کی خدمت کو ایک پلڑے میں رکھا جائے تو خاندان صادقپور کی خدمات کا پلڑا بھاری پڑ جائے" یہ جملہ گرچہ ان کے مساعی کے موافق نہ تھا لیکن آزادی کے کردار میں مسلمانوں کی کیا خدمت رہی ہے اس کا بین ثبوت ضرور مل گیا ہے۔
اچانک حیعلتین نے چونکا دیا اور سارا منظر نامہ بند ہو گیا نماز کے لیے صادقپور کی سب سے پرانی مسجد کی طرف چلے۔ مسجد تقریباً تین سو سال پرانی ہے اور اب بھی لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں۔
وقت ہو چکا تھا کہ ہم اس محلہ کو خیر آباد کہیں۔
جاری.....
___
قسط چہارم
بقلم : عبداللہ سہل
یہاں سے ہم لوگ اب صادقپور کے لیے نکل رہے تھے، پتھر کی مسجد جس میں مولوی اسماعیل دہلوی نے خطبہ دیا تھا، سے گزرتے ہوئے کئی ایک مساجد کا دیدار کرتے ہوئے منزل کو پہنچ گئے، جوں ہی ہم لوگ صادقپور نامی محلہ میں پہنچے تھے کہ سورج غروب ہونے لگا، بادلوں نے ہمیشہ کی طرح اپنوں سے جدائی کر رکھی تھی، آسمان پر دھیرے دھیرے ارغوانی چھا رہی تھی، ہواؤں کی رفتار میں تیزی ہونے لگی، لوگ جلد بازی میں اپنے کام کو سمیٹ رہے تھے، سبزی فروش دور بیٹھا اپنا حساب کر رہا تھا، چاۓ کے رسیاں دکانوں کو خالی کیے جا رہے تھے، ہر شخص اپنے مہاد کی طرف رواں دواں تھا۔ ان لمحات میں میری آنکھیں خاندان صادقپور کی فلک بوس عمارتیں، اور اس کے مکین کو ڈھونڈ رہی تھی، وہ قبرستان جس میں چودہ پشتوں تک کے لوگ مدفون تھے، جی چاہا کہ چل کر دیکھا جائے، لیکن سب کچھ ختم ہو چکا تھا، اب مولوی عبد الرحیم (اسیر کالا پانی) کی زبانی اس سرزمین اور خاندان صادقپور کی جائیداد اور قبرستان کا حال سنیے جب وہ کالا پانی کی اسارت سے رہا ہو کر گھر کو پہونچے تھے:
۔”محلہ ننموہیہ میں پہنچا، جہاں کہ میرے اہل و عیال مقیم تھے، اس کی صبح ہو کے صادق پور گیا تو وہاں دیکھا کہ ہم لوگوں کے مکانات کل منہدم کر کے کف دست میدان بنا دیا گیا ہے اور اس پر بازار اور میونسپلٹی کے مکانات بنا دیے گئے ہیں۔ میں نے چاہا کے اپنے خاندانی مقبرہ کو کہ جہاں چودہ پشت سے ہمارے آبا و اجداد دفن ہوتے چلے آئے تھے جا کر دیکھوں اور خصوصاً اپنے والدین ماجدین غفر ﷲ لہما کے مزار کی زیارت کروں اور اس پر دعائے مغفرت اور فاتحہ پڑھوں۔ مگر ہر چند کہ کوشش کی پتا نہ ملا۔ بعد تجسس و تفحص بسیار و غور و فکر کے قرینہ سے معلوم ہوا کہ حضرت والدین ماجدین کی قبریں کھود کر اس پر عمارت میونسپلٹی بنا دی گئی ہے۔
اے حضرات ناظرین! اس وقت اس حرکت کا جو ہمارے اموات کے ساتھ کی گئی جو صدمہ دل سے گزرا وہ بیرون از حیطہ تحریر و تقریر ہے۔ اس وقت تک اس کی یاد سے بدن کے رونگٹے تک کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے جرم میں ہمارے اموات و آبا و اجداد کی قبریں کیوں کھودی گئیں اور وہ مقبرہ کیوں معرض ضبطی میں آیا، ہماری عادل گورنمنٹ نے کیوں یہ کام کیا ؟ بہرکیف میں نے اسی جگہ کھڑے ہو کر کہ جہاں ان کی قبر میرے خیال میں آئی دعائے مغفرت کر لی اور آج تک بھی ایسا ہی کر لیا کرتا ہوں۔” (الدر المنثور فی تراجم اھل الصادق فور، ص: 144- 145، مطبوعہ ہادی المطابع کلکتہ 1901ء)۔
مولوی عبد الرحیم جیسے ہی خاموش ہوۓ تھے کہ یہ زمین گویا ہوئی کہ تو ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ اور سن لیا نا، اب نہ یہاں مولوی عبد الخبیر صادقپوری کا کوئی مطب ہے اور نہ ہی کوئی مولوی عبدالرحیم صادقپوری کی طرح صبح صبح یہاں آتا ہے تاکہ اپنے آباء و اجداد پر فاتحہ پڑھے۔ کیونکہ لوگوں نے ان کی خدمات کو قصہ پارینہ سمجھ لیا ہے۔
یہ سچ ہیکہ تحریک آزادی میں جتنی مساعی اس خاندان کی رہی ان تک دوسرے نہ پہونچے، لیکن ان کی کوششوں اور مساعی کے صلہ میں "نہرو جی" نے چند الفاظ ہی ان کے گھر آ کر مولوی عبد الخبیر صادقپوری سے کہے کہ "خاندان صادقپور کی خدمات کو ایک پلڑے میں اور تمام ہندوستانیوں کی خدمت کو ایک پلڑے میں رکھا جائے تو خاندان صادقپور کی خدمات کا پلڑا بھاری پڑ جائے" یہ جملہ گرچہ ان کے مساعی کے موافق نہ تھا لیکن آزادی کے کردار میں مسلمانوں کی کیا خدمت رہی ہے اس کا بین ثبوت ضرور مل گیا ہے۔
اچانک حیعلتین نے چونکا دیا اور سارا منظر نامہ بند ہو گیا نماز کے لیے صادقپور کی سب سے پرانی مسجد کی طرف چلے۔ مسجد تقریباً تین سو سال پرانی ہے اور اب بھی لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں۔
وقت ہو چکا تھا کہ ہم اس محلہ کو خیر آباد کہیں۔
جاری.....
؞؞ روداد سفر پٹنہ ؞؞
قسط پنجم
بقلم : عبد اللہ سہل
صادقپور سے لوٹےتو رات کافی زیادہ ہو چکی تھی اس لیے پھلواری نہ جا کر ہم نے عالم گنج میں ہی قیام کیا۔
صبح ہو کے عبداللہ ارشد صاحب ہمیں گنگا کے کنارے لے گئے، جہاں اہل حدیثوں کی ایک مسجد بنام "جنگی مسجد" ہے، جو پانی سے بالکل لگی ہوئی ہے، شمال جانب قبرستان ہے جس کے دروازہ پر قفل اصغر لٹکا ہوا تھا، مسجد کے پاس کچھ دکانیں بھی ہیں ہم نے ایک معمر صاحب سے پوچھا :
چچا : اس مسجد کے بارے میں بتلائیں؟
پاس بیٹھے لوگوں نے خبر دی کہ میری تین پشتیں اسی میں نماز پڑھتی آ رہی ہیں۔ کسی نے کہا دیڑھ سو سال، سب کی باتیں سنی تو دل نے یہی کہا، الگ الگ لوگ، الگ الگ زبان۔ بعد ازاں اصلاحیہ سلفیہ کے ناظم اعلیٰ غازی صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا یہ مسجد پہلے ایک خیر خواہ عبد القدیر خان کی زمین تھی جسے انہوں نے وقف کر دیا تھا اور یہ ایک صدی کی بات ہے۔
یہاں سے آگے بڑھتے ہوئے گنگا کی طرف دیکھا، تاحد نگاہ پانی تھا، کثرت شبنم کی وجہ سے اس کے کنارے کا علم نہیں ہو پا رہا تھا، شاید کوئی تعمیری کام بھی جاری تھا لیکن ٹھنڈ تیز ہونے کی بنا پر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا ہو رہا ہے، ملاح حضرات اپنی کشتیاں تیار کر رہے تھے، کچھ تو مچھلیاں پکڑنے کی تیاری میں مصروف تھے، ہم عمر احباب گنگا کی سیر پر تھے، گویا ہر شخص اپنی زندگی میں مگن تھا۔
اسی راستے سے پا پیادہ پٹھان ٹولی میں واقع مدرسہ اصلاحیہ سلفیہ پہنچے، جہاں ہمیں ذرہ بھی امید نہ تھی کہ کوئی ملے گا، مدرسہ کا صدری دروازہ اندر کو کھلتا تھا ہم اسی کے ذریعے اندر داخل ہوۓ تھے تھوڑی دور پہونچے بھی نہ تھے کہ ایک صاحب نے کہا : بھیا کون ہو، رکو، آگے نہ جاؤ، ناظم صاحب ابھی ہیں بگڑ جائیں گے۔ یہ اللہ کی غیبی مدد تھی جس کو اس نے اس ناخواندہ علاقہ میں پوری کر دی، ہم نے اپنے ساتھیوں کا چہرہ دیکھا سب بیک وقت خوش تھے کہ ہمیں انہیں سے تو ملنا تھا، لیکن رسائی نہ تھی، دور کھڑے ہو کر ہم نے سلام کیا، پہلی مرتبہ سنائی نہیں پڑا تو خیال گزرا کہ اونچا سنتے ہیں ہم نے اور تیز سے سلامتی بھیجی۔ جھکے ہوئے سر کو جو زمین کی طرف تھا اٹھایا اور جواب دیا۔
ہمارے لیے الگ سے کمرہ کھلوایا اور دیر تک ان سے علم کشید کرتے رہے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ مولوی عبد الرحیم مولوی ولایت علی عظیم آبادی پر حدیث جس نسخہ سے پڑھتے تھے وہ نسخہ اب بھی ہمارے پاس با حفاظت موجود ہے، حتی کہ بعض مقام پر ان کی قلم سے حواشی بھی درج ہیں۔
ہم نے فورا ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا مولوی صاحب اگر ہمیں دکھلا دیں تو یہ ایک سند رہے گی کہ ہم نے مولوی ولایت جن کی وفات ١٢٦٩ھ مطابق ١٨٥٢ء میں ہوئی ہے ان پر پڑھا جانے والا مولوی عبد الرحیم کا وہ نسخہ دیکھا ہے، جواباً انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ ضرور، وہ کس جگہ رکھا ہوا ہے، یہ دیکھنا ہے، ملتا ہے تو آپ کو میسج ضرور کروں گا لیکن ہنوز اس کی نوبت نہیں آئی۔ آخر میں انہوں نے چاۓ پر مدعو کیا اور محلہ پتھر کی مسجد اصلاح المسلمين لے گئے۔
جاری....
قسط پنجم
بقلم : عبد اللہ سہل
صادقپور سے لوٹےتو رات کافی زیادہ ہو چکی تھی اس لیے پھلواری نہ جا کر ہم نے عالم گنج میں ہی قیام کیا۔
صبح ہو کے عبداللہ ارشد صاحب ہمیں گنگا کے کنارے لے گئے، جہاں اہل حدیثوں کی ایک مسجد بنام "جنگی مسجد" ہے، جو پانی سے بالکل لگی ہوئی ہے، شمال جانب قبرستان ہے جس کے دروازہ پر قفل اصغر لٹکا ہوا تھا، مسجد کے پاس کچھ دکانیں بھی ہیں ہم نے ایک معمر صاحب سے پوچھا :
چچا : اس مسجد کے بارے میں بتلائیں؟
پاس بیٹھے لوگوں نے خبر دی کہ میری تین پشتیں اسی میں نماز پڑھتی آ رہی ہیں۔ کسی نے کہا دیڑھ سو سال، سب کی باتیں سنی تو دل نے یہی کہا، الگ الگ لوگ، الگ الگ زبان۔ بعد ازاں اصلاحیہ سلفیہ کے ناظم اعلیٰ غازی صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا یہ مسجد پہلے ایک خیر خواہ عبد القدیر خان کی زمین تھی جسے انہوں نے وقف کر دیا تھا اور یہ ایک صدی کی بات ہے۔
یہاں سے آگے بڑھتے ہوئے گنگا کی طرف دیکھا، تاحد نگاہ پانی تھا، کثرت شبنم کی وجہ سے اس کے کنارے کا علم نہیں ہو پا رہا تھا، شاید کوئی تعمیری کام بھی جاری تھا لیکن ٹھنڈ تیز ہونے کی بنا پر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا ہو رہا ہے، ملاح حضرات اپنی کشتیاں تیار کر رہے تھے، کچھ تو مچھلیاں پکڑنے کی تیاری میں مصروف تھے، ہم عمر احباب گنگا کی سیر پر تھے، گویا ہر شخص اپنی زندگی میں مگن تھا۔
اسی راستے سے پا پیادہ پٹھان ٹولی میں واقع مدرسہ اصلاحیہ سلفیہ پہنچے، جہاں ہمیں ذرہ بھی امید نہ تھی کہ کوئی ملے گا، مدرسہ کا صدری دروازہ اندر کو کھلتا تھا ہم اسی کے ذریعے اندر داخل ہوۓ تھے تھوڑی دور پہونچے بھی نہ تھے کہ ایک صاحب نے کہا : بھیا کون ہو، رکو، آگے نہ جاؤ، ناظم صاحب ابھی ہیں بگڑ جائیں گے۔ یہ اللہ کی غیبی مدد تھی جس کو اس نے اس ناخواندہ علاقہ میں پوری کر دی، ہم نے اپنے ساتھیوں کا چہرہ دیکھا سب بیک وقت خوش تھے کہ ہمیں انہیں سے تو ملنا تھا، لیکن رسائی نہ تھی، دور کھڑے ہو کر ہم نے سلام کیا، پہلی مرتبہ سنائی نہیں پڑا تو خیال گزرا کہ اونچا سنتے ہیں ہم نے اور تیز سے سلامتی بھیجی۔ جھکے ہوئے سر کو جو زمین کی طرف تھا اٹھایا اور جواب دیا۔
ہمارے لیے الگ سے کمرہ کھلوایا اور دیر تک ان سے علم کشید کرتے رہے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ مولوی عبد الرحیم مولوی ولایت علی عظیم آبادی پر حدیث جس نسخہ سے پڑھتے تھے وہ نسخہ اب بھی ہمارے پاس با حفاظت موجود ہے، حتی کہ بعض مقام پر ان کی قلم سے حواشی بھی درج ہیں۔
ہم نے فورا ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا مولوی صاحب اگر ہمیں دکھلا دیں تو یہ ایک سند رہے گی کہ ہم نے مولوی ولایت جن کی وفات ١٢٦٩ھ مطابق ١٨٥٢ء میں ہوئی ہے ان پر پڑھا جانے والا مولوی عبد الرحیم کا وہ نسخہ دیکھا ہے، جواباً انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ ضرور، وہ کس جگہ رکھا ہوا ہے، یہ دیکھنا ہے، ملتا ہے تو آپ کو میسج ضرور کروں گا لیکن ہنوز اس کی نوبت نہیں آئی۔ آخر میں انہوں نے چاۓ پر مدعو کیا اور محلہ پتھر کی مسجد اصلاح المسلمين لے گئے۔
جاری....
؞؞ روداد سفر پٹنہ ؞؞
__
قسط ششم
بقلم : عبد اللہ سہل
مدرسہ اصلاح المسلمين : صادقپور کے بزرگوار مولوی
احمد اللہ، مولوی یحییٰ علی اور مولوی عبد الرحیم وغیرھم رحمہم اللہ کو جب جزیرہ انڈمان میں بھیجا گیا اور کالا پانی کی سزا مختص کی گئی تو یہ ایک دو سال کی نہ تھی بلکہ کئی سالوں کی تھی، کئیوں کو تو بیس برس تک کی سزا تھی، جہاں سے چند ایک بزرگوار ہی وطن مالوف لوٹے، مولوی احمد اللہ اور مولوی یحییٰ یہیں وفات پا گئے،اور مولوی عبدالرحیم صادقپوری صاحب ١٨٨٣ء میں دوسرے لوگوں کے ساتھ جب لوٹے تو خاندان کے لوگوں میں بگاڑ، معاشرے میں فساد اور مسلمانوں کا مقصد حیات و اصلی بدلا ہوا تھا، دیکھا، اب ان کی زبانی سنیے :
ساڑھے تین مہینہ کم بیس برس کے بعد جب میں اپنے گھر واپس آیا تو دیکھا کہ رنگ ڈھنگ، چال چلن، لباس و پوشاک اور کل طرز معاشرت تمام شہر کا بدلا ہوا ہے۔ جو لوگ اس وقت (آپ کے جزیرہ انڈمان جاتے وقت) میں عمر رسیدہ تھے وہ پیوند زمین ہو گئے۔ اور جو لڑکے تھے وہ بوڑھے ہوگئے، اور جو ملک عدم میں تھے وہ لباس ہستی پہن کر جوان ہو گئے۔ اور اب نئی روشنی، نئے اعتقادات اور نئے خیالات کے لوگ ہر جگہ پاۓ جاتے ہیں۔اس وقت بے اختیار حضرت عزیر علیہ السلام کا قول جو بیت المقدس کو ویران دیکھ کر آپ نے فرمایا ہے اور اللہ رب العزت نے اپنے کلام پاک میں اس کو حکایۃ نقل کیا۔ یاد آگیا وہ یہ ہے قال أنى یُحیي ھذہ الله بعد موتھا۔ خصوصاً اہل صادقپور کے عورت و مرد ہر ایک میں تغیر عظیم پایا، کہ جس کا سخت رنج و گزند قلب پر گزرا، اس وقت مجھ کو اپنی رہائی پر از بسکہ افسوس ہوا کہ کاش میں بھی اسی جزیرہ کا پیوند زمین ہو جاتا تو بروز محشر اپنے دونوں ساتھیوں کے ہمراہ محشور ہوتا اور نیز ان مکروہات کے معائنہ سے محفوظ رہتا۔ یا لیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا۔ (تذکرہ صادقہ ص ٢٤٠-٤١)
مولوی عبد البدیع کہتے ہیں کہ ان سب کی اصلاح کی غرض سے مولوی عبد الرحیم نے ایک مدرسہ مسمی اصلاح المسلمین ١٣٠٨ھ میں قائم کیا، (احباب! صحیح تاریخ ١٣٠٨ھ ہے جس کا عیسوی سن ١٨٩١-٩٠ بنتا ہے اور مدرسہ کے کتبہ پر بھی یہی تاریخ مرقوم ہے۔) صاحب عون المعبود علامہ شمس الحق عظیم آبادی (م١٩١١ء) اس کی تاسیس میں مولانا عبدالرحیم صاحب (م١٩٢٣ء) کے ممد و معاون رہے ہیں اور ایک قول کے مطابق اس کے مہتمم بھی رہ چکے ہیں۔ یہ مدرسہ اپنی ابتدا سے اصلاح بالعمل میں مشغول ہو گیا، اور بہتیرے کو سنوارنے کا کام کیا، نیز یہاں کے اساتذہ میں میاں صاحب کے شاگرد مولوی حکیم محمد ادریس ڈیانویؒ بن علامہ شمس الحق ڈیانوی(م ١٩٦٠ء) کا بھی نام ملتا ہے۔
مولوی عبد الرحیم جب تک زندہ رہے ساری باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیے رہے اور اپنا معاون مولوی عبد الخبیر (نواسہ بخود مولوی عبد الرحیم) کو بناۓ رکھا۔ مولوی عبد الرحیم کی وفات کے بعد مولوی عبد الخبیر مکمل طور پر اس مدرسہ کی دیکھ ریکھ کرنے لگے، اور ایک مدت کے بعد جب مدرسہ رو بہ زوال ہونے لگا اور اس کی ترقیوں پر گرہن کی چادر لمبی ہونے لگی تو پھر کبھی اسے عروج نصیب نہ ہوا، ان لوگوں نے نیک فال سمجھ کر اصلاح المسلمين کی نشاۃ ثانیہ اصلاحیہ سلفیہ کے نام سے کی، جو مولوی عبد السمیع بن مولوی عبد الخبیر جعفری (م ٢٠١٥ء) کے ہاتھوں عمل میں آئی، یہ مدرسہ پچھلی ایک دہائی سے ٢٥ سے کم طلبہ پر چل رہا ہے۔ اور اب اصلاحیہ کے ناظم اعلیٰ غازی بن عبد السمیع ہیں۔
اصلاح المسلمين و اصلاحیہ کی عمارت : اصلاح المسلمين کی عمارت کئی قسطوں میں مکمل ہوئی ہے، اندرون مدرسہ جنوب میں مسجد ہے جہاں کبھی ابتدائی طلبہ پڑھاکرتے تھے، شمال میں اصلاحیہ سلفیہ کی آفس ہے، ٹھیک چند قدم کے فاصلے پر ایک وسیع و عریض ہال اور مختلف کمرے ہیں جو ویران ہیں، اسی طرح ایک منزلہ عمارت اوپر بھی ہے جہاں متوسط و منتہی درجہ کے طلبہ پڑھا کرتے تھے اب یہاں گرد و غبار نے قبضہ کر رکھا ہے۔ مدرسہ جب بلندی سے زمین کی کف دست میں آیا تو ذمہ داران نے اس کی عمارت سے ہسپتال کا کام بھی لیا اور مدت مدید کے بعد وہ بھی بند ہو گیا۔ اصلاحیہ کی عمارت اصلاح المسلمين سے بڑی ہے، اور بڑی سی میدان ہے جس میں طلبہ کھیلتے ہیں یہاں آٹھ سالہ کورس اور حفظ کے کلاس کی تختیاں پڑی ہوئی ہیں لیکن پڑھنے والے مع اساتذہ معدودے چند ہیں، اصلاح المسلمين کی لائبریری یہیں پر ہے، جس کو ہم دیکھ نہ سکے۔
جاری.....
__
قسط ششم
بقلم : عبد اللہ سہل
مدرسہ اصلاح المسلمين : صادقپور کے بزرگوار مولوی
احمد اللہ، مولوی یحییٰ علی اور مولوی عبد الرحیم وغیرھم رحمہم اللہ کو جب جزیرہ انڈمان میں بھیجا گیا اور کالا پانی کی سزا مختص کی گئی تو یہ ایک دو سال کی نہ تھی بلکہ کئی سالوں کی تھی، کئیوں کو تو بیس برس تک کی سزا تھی، جہاں سے چند ایک بزرگوار ہی وطن مالوف لوٹے، مولوی احمد اللہ اور مولوی یحییٰ یہیں وفات پا گئے،اور مولوی عبدالرحیم صادقپوری صاحب ١٨٨٣ء میں دوسرے لوگوں کے ساتھ جب لوٹے تو خاندان کے لوگوں میں بگاڑ، معاشرے میں فساد اور مسلمانوں کا مقصد حیات و اصلی بدلا ہوا تھا، دیکھا، اب ان کی زبانی سنیے :
ساڑھے تین مہینہ کم بیس برس کے بعد جب میں اپنے گھر واپس آیا تو دیکھا کہ رنگ ڈھنگ، چال چلن، لباس و پوشاک اور کل طرز معاشرت تمام شہر کا بدلا ہوا ہے۔ جو لوگ اس وقت (آپ کے جزیرہ انڈمان جاتے وقت) میں عمر رسیدہ تھے وہ پیوند زمین ہو گئے۔ اور جو لڑکے تھے وہ بوڑھے ہوگئے، اور جو ملک عدم میں تھے وہ لباس ہستی پہن کر جوان ہو گئے۔ اور اب نئی روشنی، نئے اعتقادات اور نئے خیالات کے لوگ ہر جگہ پاۓ جاتے ہیں۔اس وقت بے اختیار حضرت عزیر علیہ السلام کا قول جو بیت المقدس کو ویران دیکھ کر آپ نے فرمایا ہے اور اللہ رب العزت نے اپنے کلام پاک میں اس کو حکایۃ نقل کیا۔ یاد آگیا وہ یہ ہے قال أنى یُحیي ھذہ الله بعد موتھا۔ خصوصاً اہل صادقپور کے عورت و مرد ہر ایک میں تغیر عظیم پایا، کہ جس کا سخت رنج و گزند قلب پر گزرا، اس وقت مجھ کو اپنی رہائی پر از بسکہ افسوس ہوا کہ کاش میں بھی اسی جزیرہ کا پیوند زمین ہو جاتا تو بروز محشر اپنے دونوں ساتھیوں کے ہمراہ محشور ہوتا اور نیز ان مکروہات کے معائنہ سے محفوظ رہتا۔ یا لیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا۔ (تذکرہ صادقہ ص ٢٤٠-٤١)
مولوی عبد البدیع کہتے ہیں کہ ان سب کی اصلاح کی غرض سے مولوی عبد الرحیم نے ایک مدرسہ مسمی اصلاح المسلمین ١٣٠٨ھ میں قائم کیا، (احباب! صحیح تاریخ ١٣٠٨ھ ہے جس کا عیسوی سن ١٨٩١-٩٠ بنتا ہے اور مدرسہ کے کتبہ پر بھی یہی تاریخ مرقوم ہے۔) صاحب عون المعبود علامہ شمس الحق عظیم آبادی (م١٩١١ء) اس کی تاسیس میں مولانا عبدالرحیم صاحب (م١٩٢٣ء) کے ممد و معاون رہے ہیں اور ایک قول کے مطابق اس کے مہتمم بھی رہ چکے ہیں۔ یہ مدرسہ اپنی ابتدا سے اصلاح بالعمل میں مشغول ہو گیا، اور بہتیرے کو سنوارنے کا کام کیا، نیز یہاں کے اساتذہ میں میاں صاحب کے شاگرد مولوی حکیم محمد ادریس ڈیانویؒ بن علامہ شمس الحق ڈیانوی(م ١٩٦٠ء) کا بھی نام ملتا ہے۔
مولوی عبد الرحیم جب تک زندہ رہے ساری باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیے رہے اور اپنا معاون مولوی عبد الخبیر (نواسہ بخود مولوی عبد الرحیم) کو بناۓ رکھا۔ مولوی عبد الرحیم کی وفات کے بعد مولوی عبد الخبیر مکمل طور پر اس مدرسہ کی دیکھ ریکھ کرنے لگے، اور ایک مدت کے بعد جب مدرسہ رو بہ زوال ہونے لگا اور اس کی ترقیوں پر گرہن کی چادر لمبی ہونے لگی تو پھر کبھی اسے عروج نصیب نہ ہوا، ان لوگوں نے نیک فال سمجھ کر اصلاح المسلمين کی نشاۃ ثانیہ اصلاحیہ سلفیہ کے نام سے کی، جو مولوی عبد السمیع بن مولوی عبد الخبیر جعفری (م ٢٠١٥ء) کے ہاتھوں عمل میں آئی، یہ مدرسہ پچھلی ایک دہائی سے ٢٥ سے کم طلبہ پر چل رہا ہے۔ اور اب اصلاحیہ کے ناظم اعلیٰ غازی بن عبد السمیع ہیں۔
اصلاح المسلمين و اصلاحیہ کی عمارت : اصلاح المسلمين کی عمارت کئی قسطوں میں مکمل ہوئی ہے، اندرون مدرسہ جنوب میں مسجد ہے جہاں کبھی ابتدائی طلبہ پڑھاکرتے تھے، شمال میں اصلاحیہ سلفیہ کی آفس ہے، ٹھیک چند قدم کے فاصلے پر ایک وسیع و عریض ہال اور مختلف کمرے ہیں جو ویران ہیں، اسی طرح ایک منزلہ عمارت اوپر بھی ہے جہاں متوسط و منتہی درجہ کے طلبہ پڑھا کرتے تھے اب یہاں گرد و غبار نے قبضہ کر رکھا ہے۔ مدرسہ جب بلندی سے زمین کی کف دست میں آیا تو ذمہ داران نے اس کی عمارت سے ہسپتال کا کام بھی لیا اور مدت مدید کے بعد وہ بھی بند ہو گیا۔ اصلاحیہ کی عمارت اصلاح المسلمين سے بڑی ہے، اور بڑی سی میدان ہے جس میں طلبہ کھیلتے ہیں یہاں آٹھ سالہ کورس اور حفظ کے کلاس کی تختیاں پڑی ہوئی ہیں لیکن پڑھنے والے مع اساتذہ معدودے چند ہیں، اصلاح المسلمين کی لائبریری یہیں پر ہے، جس کو ہم دیکھ نہ سکے۔
جاری.....
HTML Embed Code: